1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بھارتی کسانوں کا احتجاج، پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے‘

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
26 جون 2021

بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کسانوں کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسی تناظر میں حکام نے سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3vavm
West Bengal Landwirte Farmer Protest BJP
تصویر: Indranil Aditya/NurPhoto/picture alliance

 بھارت میں مودی حکومت کے متعارف کردہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو اب سات ماہ ہو چکے ہیں اور اسی مناسبت سے 26 جون ہفتے کے روز درجنوں کسان تنظیموں کے ورکرز نئی دہلی سمیت ریاستی دارالحکومتوں کی جانب احتجاجی مارچ کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوئے، تاہم انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے حکام نے جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ 

کسان تنظیموں کا اعلان

بھارتی کسانوں کی نمائندہ تنظیموں نے اعلان ک رکھا ہے کہ وہ حکمرانوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے تمام صوبائی دارالحکومت میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ تاہم بیشتر ریاستوں میں انہیں اس سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس فورسز تعینات ہیں۔ دارالحکومت دہلی کی سرحد اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا گزشتہ دسمبر سے جاری ہے اور پولیس نے آج کے احتجاجی مارچ کو روکنے کے لیے  وہاں بھی سخت انتظامات کیے ہیں تاکہ مظاہرین دہلی میں نہ داخل ہو پائیں۔

'پاکستان سے خطرہ‘

اس دوران بھارتی خبر رساں اداروں نے خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ دہلی میں کسانوں کے احتجاجی مارچ کو پاکستانی خفیہ ادارے 'انٹر سروس انٹیلیجنس‘ (آئی ایس آئی) سے سبوتاژ ہونے کا خطرہ لاحق ہے اور اس بارے میں پولیس حکام  کو ریڈ الرٹ جاری کر دیا گيا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے پولیس اور دیگر سلامتی کے اداروں کو ایک خط لکھ کر متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے، ''پاکستان کی آئی ایس آئی پراکسی سکیورٹی اہلکاروں کو اشتعال دلا کر کسانوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔‘‘ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اسی تناظر میں دارالحکومت دہلی میں سکیورٹی کو زیادہ سخت کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں جب کسانوں نے حکومتی قوانین کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی وزير اعظم نریندر مودی کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے پیچھے "پاکستان اور چین کا ہاتھ" ہے۔ تاہم کسان تنظیموں اور دیگر جماعتوں نے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

West Bengal Landwirte Farmer Protest BJP
تصویر: Indranil Aditya/NurPhoto/picture alliance

دہلی کو بند کر دیا گيا

دارالحکومت دہلی میں کسانوں کے مارچ کے پیش نظر  کئی میٹرو اسٹیشنوں  کو بند کر دیا گیا ہے  جبکہ تمام سرحدی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں پولیس کی بھاری نفری تعینات  کر دی گئی ہے تاکہ کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے باز رکھا جا سکے۔

واضح رہے کہ رواں برس 26 جنوری کو کسانوں کی دہلی میں نکالی جانے والی ریلی کے دوران خاصی زیادہ ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی تھی۔ بہت سے مظاہرین اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ فصیل بند شہر میں پہنچ کر لال قلعے میں داخل ہو گئے تھے اور بعض افراد نے اسی مقام پر سکھ مذہب کا پرچم بھی لہرا دیا تھا جہاں سے بھارتی وزیر اعظم پندرہ اگست کے روز قوم سے خطاب کرتا ہے۔

کسانوں کی دہلی میں گھسنے کی کوشش

جمعے کی شام کو پڑوسی ریاست اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی کے مضافات میں ٹکری  اور سنگور کے سرحدی مقامات پر جمع ہو گئے تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کسان گزشتہ سات ماہ سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ لاکھوں کسان پابندیوں کے باوجود اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کسانوں کے اس احتجاجی مارچ کا نعرہ ہے، "کھیتی بچاؤ، جمہوریت بچاو"۔ متعدد کسان تنظیموں کی قیادت کسان رہنما مہندر سنگھ ٹکیت کر رہے اور ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ چل پڑے ہیں اور حکومت لاکھ کوشش کرے ان کا مارچ جاری رہے گا۔

کسانوں کی بڑی تنظیم 'بھارتیہ کسان یونین'  کے ایک رہنما درشن پال نے ایک بیان میں کہا، "گزشتہ سات مہینوں سے کسان تنظیموں کی جانب سے دنیا کا سب سے بڑا اور طویل ترین احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ اس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں افراد شریک ہوتے رہے ہیں اور اب ہم نے اپنی کوششیں مزید تیز تر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔"

کسان تنظیموں کے مطالبات

مودی حکومت نے سن 2020 جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کرايا تھا، ان کے خلاف ملک کے متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار بھی ہو چکے ہیں تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔

حکومت نے ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کیا ہے لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہيں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔

کسانوں کے احتجاج ميں عورتيں بھی پيش پيش

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں