1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہعراق

ہم جنس پرستی، عراق میں قابل سزا جرم قرار

29 اپریل 2024

عراقی پارلیمان نے جسم فروشی کے انسداد کے قانون میں تبدیل کرتے ہوئے ہم جنس پرست افراد کے لیے جیل کی طویل سزائیں مقرر کر دی ہیں۔ ’جنسی انحراف‘ کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fIWF
شیعہ رہنما مقتدا الصدر LGBTQ کے جھنڈے پر سے گزرتے ہوئے۔
تصویر: Hadi Mizban/AP/picture alliance

عراق کی طرف سے ہم جنس پرستی کے حوالے سے ملک میں پہلے سے موجود قوانین میں تبدیلی پر امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ عراق ایک قدامت پسند عرب ملک ہے جہاں ہم جنس پرستی پہلے ہی ایک شجر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ عراقی پارلیمان میں قانون سازی کے زریعے اب براہ راست ہم جنس پرستی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہم جنس نوبیاہتا جوڑے ’خیروبرکت‘ کی دعا لے سکتے ہیں، ویٹی کن

نیپال میں ہم جنس پسند افراد کی شادی کی قانونی منظوری

1988ء کے انسداد جسم فروشی قانون میں ہفتہ 27 اپریل کو خاموشی سے کی گئی  ترمیم کے بعد اب  ہم جنس پرستانہ تعلقات  ثابت ہونے پر  ملزمان کو دس  سے پندرہ  برس تک جیل کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جنس کی تبدیلی کی سزا ایک سے بڑھا کر تین برس تک مقرر کی گئی ہے۔ دانستہ  طور پر نسوانیت اختیار  کرنے کی بھی اتنی ہی سزا مقرر کی گئی ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اس قانون کو 'خطرناک اور پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔تصویر: JUSTIN TALLIS/AFP/Getty Images

اس قانون میں ان تنظیموں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جو 'جنسی انحراف‘ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں کم از کم سات برس قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور ساتھ ہی 10 ملین دینار کا جرمانہ بھی، جو 7600 ڈالر کے قریب رقم بنتی ہے۔

قانونی ترمیم پر ردعمل

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قانون ''ان لوگوں کو سب سے زیادہ خطرے میں ڈالے گا جو عراقی معاشرے میں پہلے ہی خطرات کا شکار ہیں۔‘‘ ساتھ ہی عراق کو اس سبب معاشی اثرات سے بھی خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ''عراق کی اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔‘‘

میتھیو مِلر کے مطابق، ''بین الاقوامی کاروباری اتحاد پہلے ہی اس  بات  کا ذکر کر چکے ہیں کہ عراق میں اس طرح کا امتیاز ملکی تجارتی اور معاشی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔‘‘

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اس قانون کو 'خطرناک اور پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایل جی بی ٹی کیو پلس رائٹس سے منسلک سینیئر ریسرچر راشا یونس کے بقول اس قانون کی منظوری ''عراق کے ایل جی بی ٹی لوگوں کے خلاف حقوق کی خلاف ورزیوں کے خوفناک ریکارڈ پر مہر تصدیق ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین دھچکہ ہے، جس میں اظہار رائے اور انجمن سازی کی آزادی، رازداری، مساوات، اور امتیازی سلوک سے مبرا رہنے جیسے حقوق شامل ہیں۔‘‘

تاہم عراقی حکام نے اس قانون کا دفاع کیا ہے۔ عراقی پارلیمان کے عبوری اسپیکر محسن المندالوی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ قانون ''معاشرے کے اقدار کے ڈھانچے کی حفاظت، اور ہمارے بچوں کو اخلاقی بد کرداری اور ہم جنس پرستی کی طرف راغب کرنے کی کوششوں کے خلاف ایک ضروری اقدام تھا۔‘‘

عراقی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس قانون کے ابتدائی مسودے میں ہم جنس پرستانہ تعلقات کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی تھی۔

ا ب ا/ش ر (اے پی، ڈی پی اے)