1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماسکو مذاکرات میں بھارتی شرکت: کیا امن کا راستہ کھل جائے گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
9 نومبر 2018

ماسکو میں ہونے والے افغان امن مذاکرات سے متعلق اجلاس میں بھارتی وفد کی شمولیت کو ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس طرح ہندوکش کی اس جنگ زدہ ریاست میں امن کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

https://p.dw.com/p/37yJ5
Afghanistan Konferenz in Moskau Lawrow
افغان طالبان کے وفد کے ایک رکن، دائیں، اور روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروفتصویر: Reuters/S. Karpukhin

آج جمعہ نو نومبر کو روسی دارالحکومت ماسکو میں افغان امن کے حوالے سے مذاکرات کا ایک دور ہوا، جس میں امریکا، بھارت، چین، ایران، پاکستان، افغان طالبان اور افغان اعلیٰ امن کونسل کے ارکان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے وفود نے بھی شرکت کی۔

یہ مذاکرات ستمبر میں ہونا تھے لیکن افغان حکومت کے اعتراضات کے بعد انہیں ملتوی کر دیا گیا تھا۔ بھارت کی طرف سے اس کے کسی وفد نے سرکاری طور پر اس اجلاس شرکت نہیں کی تاہم غیر رسمی طور پر اس میں بھارت کے طرف سے دو نمائندوں نے حصہ لیا، جو حکومتی نمائندے تو نہیں لیکن امور خارجہ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور ماضی میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ افغان حکومت اور امریکا نے بھی اس میں غیر رسمی طور پر اپنے نمائندے بھیجے۔ افغان حکومت نے حکومتی نمائندوں کی جگہ اعلیٰ امن کونسل کے ارکان کو بھیجا جب کہ امریکا نے ماسکو میں تعینات اپنے سفارت کار کو اس اجلاس میں بھیجا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے ایسے کسی مذاکرات میں شرکت کی ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ اجلاس امن کے لیے راستے کھول سکتا ہے۔ معروف پاکستانی تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں اس اجلاس میں اتنے سارے نمائندوں اور طالبان کی شرکت سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ اب شاید افغانستان میں امن قائم ہو جائے۔

Afghanistan Konferenz in Moskau Lawrow
تصویر: Reuters/S. Karpukhin

یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں بھارت کی ان مذاکرات میں شرکت بہت معنی خیز اور مثبت ہے کیونکہ افغان حکومت، امریکا اور بھارت کی سوچ تقریباﹰ ایک ہی جیسی ہے۔ ان کا اس طرح طالبان اور پاکستان کے نمائندوں کے سامنے بیٹھنا مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اس اجلاس کی وجہ سے امریکا پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کوششیں تیز کر دے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا، تو چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے میں رہنما کردار ادا کریں گے۔‘‘

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پر بھی روس اور خطے کے دوسرے ممالک کا دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کے لیے کام کریں کیونکہ روس نے ان کو ایک طرح سے قانونی حیثیت دلوانے کی کوشش کی ہے۔

اسلام آباد کو یہ شکوہ رہا ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور پاکستان دشمن عناصر کی مدد کر رہا ہے۔ نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ وہ اس جنگ زدہ ملک میں امن کے لیے کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کرے گا، جو کابل نے شروع کی ہو اور جس کی باگ ڈور بھی افغان حکومت ہی کے پاس ہو۔

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان اور بھارت کا افغان امن کے لیے ایک ساتھ بیٹھنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں پاکستان اور بھارت کو ہر ایسے اقدام کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، جس سے خطے میں استحکام پیدا ہو۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’خطے میں استحکام اور امن ہو گا، تو یہاں خوشحالی آئے گی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی اپنی لڑائیاں صرف آپس میں ہی نہیں لڑ رہے بلکہ انہوں نے افغانستان کو بھی اس کشیدگی کا حصہ بنا لیا ہے اور دونوں کی کوشش ہے کہ وہاں اثر و رسوخ حاصل کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ مناسب پالیسی نہیں ہے۔ اب جب کہ بھارت بھی ان مذاکرات کا کسی نہ کسی طرح، رسمی یا غیر رسمی طور پر، حصہ بنا ہے تو پاکستان کو بھی پورا تعاون کرنا چاہیے۔ اگر افغانستان میں امن ہو گا، تو اس سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ چین کو معاشی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد ملے گی، جس کے ثمرات سے افغانستان اور بھارت سمیت خطے کے سارے ممالک فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت پہلی مرتبہ ایسے مذاکرات کا حصہ بنا ہے۔ اس سے یقیناً اس جنگ زدہ ملک کو بدامنی سے نکالنے میں مدد ملے گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں