1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تپ دق کے خلاف مؤثر ادویات کے تجربات جاری

Kishwar Mustafa29 مارچ 2013

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب بھی ہر سال مہلک عارضے ٹی بی یا تپ دق کے 9 ملین کیسس سامنے آتے ہیں جبکہ اس بیماری کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد سالانہ 1.4ملین ہے۔

https://p.dw.com/p/186nH
تصویر: picture-alliance/dpa

برلن کے طبی تحقیق کے معروف ادارے روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والے نئے اعداد وشمار سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں2011 ء کے دوران تپ دق کے چار ہزار تین سو کیسس کا اندراج ہوا۔ یہ تعداد 2010 ء سے تاہم کچھ کم ہے۔

ٹی بی یا تپ دق کے زیادہ تر مریض دنیا کے غریب ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ خاص طور سے صحارا کے جنوب میں واقع افریقی ممالک میں اس بیماری نے قوت مدافعت کی کمزوری سے پیدا ہونے والے مہلک عارضے ایڈز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لی ہے۔ ان دونوں بیماریوں کے خلاف مزاحمت نہ رکھنے ولے انسانوں کی جان بچانا ممکن نہیں ہوتا اور اس رجحان میں تیزی آ رہی ہے۔

TBC Tuberkulose Frau Patientin Südafrika
افریقی ممالک تپ دق کی بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہیںتصویر: Alexander Joe/AFP/Getty Images

ایک جرمن ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر دو سال قبل پیش آنے والے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،’’ جب میرے سامنے 14 سالہ پاکستانی لڑکی حسینہ کو لایا گیا تو یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ صورتحال تھی‘‘۔ اس لڑکی کا تعلق سوات سے ہے اور وہ راولپنڈی میں قائم ایک ہسپتال میں اس جرمن ڈاکٹر کے زیر علاج رہی ہے ۔ ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر مزید کہتی ہیں کہ تب دق کی موذی بیماری نے اُس کے جسم کو اس حد تک گُھلا دیا تھا کہ اُس کا وزن 24 کلو رہ گیا تھا۔

جرمن ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر کے بقول حسینہ کی بیماری تو ایک المیہ تھی ہی تاہم ساتھ ہی وہ خود کو راولپنڈی کے اس ہسپتال میں اس قدر اجنبی اور غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی جیسے کہ وہ کسی دور افتادہ غیر ملک میں ہو۔ حالانکہ اُس کا تعلق وادی سوات سے تھا جو راولپنڈی سے محض 200 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ حسینہ کو سب کچھ ہی اجنبی لگ رہا تھا۔ انجانے لوگ، ناآشنا زبان اور خاص طور سے بیماری کا خوف۔ اُسے بالکل نہیں پتہ تھا کہ اُس کا علاج ممکن ہے۔

ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر نے حسینہ کے گھر والوں کو تمام ضروری اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا،’’حسینہ کو ہمارے ہسپتال میں طویل عرصے کے لیے داخل ہونا پڑے گا۔ اس کے متعدد معائنے ضروری ہیں۔ روزانہ اسے پانچ طرح کی اینٹی بائیو ٹکس لینا ہوں گی‘‘۔

ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر کا تعلق کرسچن نرسز ایسو سی ایشن سے ہے۔ یہ جذام اور تپ دق مریضوں کی امداد کی جرمن انجمن DAHW کے اشتراک عمل سے کام کرتی ہیں۔

حسینہ کو آٹھ ماہ تک روزانہ ٹیکے لگتے رہے اور بقیہ دوا اُسے آئندہ 16 ماہ تک روزانہ کھاتے رہنا تھا۔ حسینہ کی صحت بہت ہی سست رفتاری سے بہتر ہو رہی تھی۔ اتنی دواؤں کے ضمنی اثرات بھی نہایت سخت تھے۔ حسینہ روزانہ قے کر تی تھی، اس کے جوڑوں میں درد رہتا تھا اور اُس کی قوت سماعت بھی بُری طرح متاثر ہوئی تھی۔ تاہم ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر کا کہنا ہے کہ حسینہ نے بہت بہادری کے ساتھ اپنی بیماری کا مقابلہ کیا اور آخر کار طویل عرصے کے بعد اُس کا علاج مکمل ہوا۔

,
یوکرائن میں تپ دق کے علاج کے لیے مویائل کلینکس قائم ہیںتصویر: DW/O. Sawizki

ڈاکٹر شموٹسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے محض علاج کا کامیاب تجربہ ہی نہیں کیا بلکہ بہت سے ناکام کیسس بھی ان کے سامنے آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ملٹی ریززسٹنس ٹی بی‘ ایک مشکل طبی اور سماجی چیلنج ہے۔ اس بیماری کے طویل عرصے پر محیط علاج کے بعد ادویات کے ضمنی اثرات بہت سے مریضوں کے لیے تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی قوت مدافعت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور ان پر بنیادی ادویات بھی اثر انداز نہیں رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر تپ دق کے خلاف نئے طریقہ علاج کی کامیابی کے بارے میں بہت پُر امید نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’ غریب ممالک میں تپ دق کے خلاف نئی ادویات دستیاب ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔

2012 ء میں امریکا میں ’ملٹی ریززسٹنس ٹی بی‘ کے سنگین کیسس کے خلاف Badequilin نامی ایک دوا کو دیگر مختلف ادویات کے ساتھ ملا کر تیار کیا گیا اور اس کے تجربے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ تاہم یہ تجرباتی مرحلہ ابھی اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔ جرمنی کے انسداد ٹی بی کی مرکزی کمیٹی سے منسلک طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس موذی عارضے کے خلاف مؤثر دوا کے ایجاد کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

km/ai agencies)