1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتپاکستان

صحافی عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد غصہ اور احتجاج

6 جولائی 2022

معروف اینکر اور صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری پر سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں کی طرف سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم حکام کے مطابق مذکورہ صحافی کو مروجہ قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DlEs
Pakistan TV-Journalist Imran Riaz Khan | Festnahme
تصویر: privat

پاکستان کی موجودہ حکومت اور فوجی قیادت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی عمران ریاض خان کو پولیس نے گزشتہ روز اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کیا تھا۔ اینکر عمران ریاض کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف ملک بھر کے تھانوں میں 12 سے زائد مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔

گرفتاری سے قبل عمران ریاض نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہیں ہراساں کرنے والوں میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی لاہور کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر راشد نصیر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انہیں موجودہ فوجی قیادت کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔

صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی رائے

سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ حکومت اور ریاست کی طرف سے کسی بھی صحافی کو ہراساں کرنا کسی طور درست اقدام نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر پابندی عائد کرنا اور ایف آئی آر درج کرنا آزادی اظہار پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اینکر عمران ریاض، جن شہروں میں کبھی گئے ہی نہیں، ان شہروں میں بھی ان کے خلاف مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔

Pakistan TV-Journalist Imran Riaz Khan
صحافی عمران ریاض خانتصویر: privat

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی کا کہنا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے تحت آزادی اظہار رائے کے حامی ہیں اور کسی بھی صحافی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں،''مگر کسی صحافی یا اینکر کو کسی سیاسی جماعت کا آلہء کار نہیں بننا چاہیے۔ بدقسمتی سے بعض سرکردہ صحافیوں کا سیاسی جماعتوں کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے۔‘‘

حکومتی موقف کیا ہے؟

وزیر قانون پنجاب ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا حق ہے مگر اینکر عمران ریاض نے اپنی پوسٹ میں ریڈ لائن کراس کی اور وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں،''لہذا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ ہماری کسی سے ذاتی رنجش نہیں، یہ آزادی کسی کو نہیں دی جا سکتی کہ سوشل میڈیا پر عزتیں اچھالی جائیں، پارٹی ورکر اور صحافی میں فرق ہونا چاہیے، صحافت کے نام پر کسی کو قانون سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

دوسری جانب عمران ریاض کی گرفتاری پر ردِ عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ملک بھر کے پریس کلبوں کے سامنے عمران ریاض خان کی گرفتاری اور آزادی اظہار کو دبانے کی کوشش کے خلاف احتجاج کریں گے۔