1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتپاکستان

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

6 جولائی 2022

بطور صحافی میرا سب سے پہلا جواب ہے کہ ہاں، بالکل کی جانا چاہیے اور بغیر کسی اگر مگر کے کی جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4Dk6n
Imtiaz Ahmad Blog
تصویر: DW

انتقامی کارروائیوں کا نشانہ حامد میر بنیں، مطیع اللہ جان بنیں، اسد طور ہوں، ابصار عالم ہوں، سہیل وڑائچ ہوں یا پھر اعزاز سید، بطور صحافی مشکل حالات میں ہمیں ان سب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔

لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستانی صحافت نے اپنے لیے گڑھے خود کھودے ہیں۔ آخر کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے کہ لوگ صحافیوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہمیں ان اسباب کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہاں کہاں صحافت اور سیاست میں موجود لائینیں ختم ہو رہی ہیں۔ صحافت کے لبادے کے پیچھے آپ وہ سب کچھ نہیں کر سکتے، جس کی صحافتی اقدار بالکل اجازت نہیں دیتیں اور بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔  

کیا ایک صحافی ایک جیالا ہوتا ہے؟ کیا ایک صحافی پی ٹی آئی کا ٹائیگر ہونا چاہیے، کیا ایک صحافی یا تجزیہ کار کو تخت لاہور کا قصیدہ گو ہونا چاہیے؟ تو جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک صحافی کو ایک صحافی ہی رہنا چاہیے۔ صحافت اور سیاست میں فرق قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ایک صحافی اور ایک سیاستدان میں ہوتا ہے۔

سیاستدان اکثریت کی حمایت کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن ایک صحافی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اگر ایک سیاستدان جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہا ہے تو ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کا کام اس سچ اور جھوٹ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ خفیہ معلومات کے حصول کے لیے ہر صحافی سیاستدانوں یا پھر اقتدار کے حلقوں کی قربت چاہتا ہے لیکن دوسری جانب قارئین اور عوام کے سامنے ایک صحافی کی غیر جانبداری ہی اس کا سب سے بڑا اور اصل سرمایہ ہوتی ہے۔

لیکن اسے شاید پاکستانی صحافت کی بدقسمتی کہہ لیجیے کہ یہاں پر ''غیرجانبداری جیسا سرمایہ‘‘ کچرے کا ڈبہ خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نامور صحافی ''دا بڈی (دوست) ، پارٹی ممبر، ذاتی، کمفرٹ ایبل اور دا ہنٹر جرنلسٹ بن چکے ہیں۔‘‘

  • دا بڈی صحافی

 بڈی (دوست) صحافی وہ ہوتے ہیں، جو سیاستدانوں کے دوست بن جاتے ہیں۔ یہ صحافی اپنے دوست سیاستدانوں کے خلاف ثبوتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے ان کی حمایت جاری رکھتے ہیں۔ ایسے صحافی اُسی وقت اپنے دوست سیاستدانوں سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں، جب انہیں پتا چل جائے کہ ثبوت عوام کے سامنے آ جائیں گے اور عوامی رد عمل آئے گا۔ لیکن ایسے صحافی ہر اس مشکل گھڑی میں اپنے سیاستدان دوستوں کی مدد کو تیار ہوتے ہیں، جب انہیں ضرورت ہوتی ہے اور ان کو یقین ہو کہ انہیں بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔ سب سے آسان بڈی صحافیوں کو مانی پولیٹ (دماغ سازی) کرنا ہوتا ہے کیوں کہ یہ اپنے دوست سیاستدانوں پر اندھا اعتبار کرتے ہیں۔

  •  ہنٹر صحافی

پاکستان میں ہنٹر صحافیوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے صحافی اپنے مخصوص یکطرفہ مقاصد کے لیے سیاستدانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان سچ بھی بولے تو یہ اسے جھوٹ بنا کر ہی پیش کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کے پاس کثیر النظری، غیرجانبداری اور مقصدیت تینوں چیزوں کا فقدان ہوتا ہے۔ کیا یہ عوام یا صحافت کی بہتری چاہتے ہیں اس پر سوالیہ نشان ہے؟

  • ذاتی صحافی

ایسے صحافی سیاستدانوں کی نظر میں ان کے اپنے صحافی ہوتے ہیں۔ ایسے صحافی بغیر کسی چوں چرا کے وہ مواد شائع کر دیتے ہیں، جو انہیں سیاستدان دوست مہیا کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کی اہمیت سیاستدانوں کی اپنی پبلک ریلیشن ٹیم سے تھوڑی زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ کام وہی کرتے ہیں۔

  • پارٹی ممبر صحافی

پارٹی ممبر صحافی کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے دلائل ، اسٹوری چوائس، بولنے کے انداز اور مخصوص پارٹی سے متعلق تنقیدی سوالات اٹھانے کی صلاحیت سے پتا چلتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔ ایسے صحافی کسی کے حق میں اپنے دلائل کو پالش کرنے میں کافی وقت لگاتے ہیں تاکہ اسٹوری چوائس پر عقلی دلائل دیے جا سکیں۔

  • کمفرٹ ایبل صحافی

ایسے صحافی 'میں تمہارا ساتھ دوں گا تم میرا ساتھ دینے‘ کی پالیسی اپناتے ہیں۔ ان کا موٹو ہوتا ہے کہ اگر ہم دونوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو لڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسے صحافی بس اپنی زندگی آسان چاہتے ہیں، جہاں سے کھانے کی دعوت آئے اسی پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے صحافی سب سے بنا کر رکھنے کے اصول پر قائم ہوتے ہیں، ہر ایک کے لیے کمفرٹ ایبل ثابت ہوتے ہیں۔

  •  پروفیشنل صحافی

کسی سیاسی جماعت کا ہمدرد نہیں بنتا، اس کی ایمانداری کو خریدا نہیں جا سکتا، حقائق عوام تک پہنچانا چاہتا ہے، سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اپنی رائے، رپورٹوں اور آرٹیکلز کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر رائے اور زاویے کو سامنے لاتے ہیں، چاہے خود انہیں یہ رائے نا پسند کیوں نہ ہو۔ کسی کو مقدس گائے نہیں سمجھتے۔

ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی، نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی ہر بات ٹھیک ہو اور ان جماعتوں کی قیادت نے کبھی غلطیاں نہ کی ہوں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ فوج سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور فوج میں کوئی اچھائی نہ ہو؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطور صحافی ایک صحافی دیانتداری سے کام لے۔ عوام کو حتی الامکاں سچ پر مبنی اطلاعات فراہم کی جائیں۔ آپ تجزیے کرتے وقت بھی جہاں تک ممکن ہو سکے غیر جانبدار رہتے ہوئے تجزیے کریں لیکن ایسا نہیں رہا۔ پاکستانی میڈیا پر تجزیے اور کالم صحافیوں کے نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں، بڈی، پارٹی ممبر اور ہنٹر صحافیوں کے تجزیے لگنا محسوس ہو گئے ہیں۔

عوام میں ایک غیرجانبدار صحافی یا تجزیہ کار کا تاثر قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید ایک صحافی کو اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے اور پاکستان میں شاید اب صحافیوں کے لیے ذاتی مفادات اور ذاتی نظریات کی قربانی دینا ایک مشکل امر ہو گیا ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔