1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہماری تنظیم کا پاکستانی سرزمین پر کوئی وجود نہیں، جیش العدل

18 جنوری 2024

ایرانی عسکریت پسند تنظیم جیش العدل سے وابستہ ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں تنظیم ڈھانچے کی موجودگی کے تمام ایرانی حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں۔

https://p.dw.com/p/4bQVI
Afghanistan | Fotostrecke "Suche nach einem Zuhause"
تصویر: Ebrahim NorooziAP/picture alliance

جنوب مغربی پاکستانی صوبہ بلوچستان کے علاقے پنجگور اور ایرانی علاقے سرآوان میں ہونے والے دو طرفہ فوجی کارروائیوں کے دوران مقامی بلوچ  آبادی کو شدید جانی اور مالی نقصانات پہنچنے کی اطلاعات کی تصدیق ہوئی ہے۔  

پاک ایران سرحدی علاقوں میں فضائی حملوں سے خطے میں شدید کشیدگی پھیل گئی ہے۔ پاکستان نے ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں مزید فوجی دستوں کو طلب کیا ہے۔ ایران نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی جوابی فضائی کارروائی کے دوران سرآوان میں جو افراد ہلاک ہوئے ہیں وہ ایرانی شہری نہیں تھے۔

نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جیش العدل کے عہدیدار نے مزید کہا، "ایرانی حکومت ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے حقائق مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہے۔ جیش العدل سے متعلق ایرانی حکومت نے جوحالیہ موقف اختیار کیا ہے۔ ہم اس کی تردید کرتے ہیں ۔ پاسداران  انقلاب ہمیں پاکستان میں ڈھونڈنے کے بجائے  اپنی سرزمین پر ہماری موجودگی تسلیم کرے۔ جیش العدل ایران میں مظلوم بلوچ عوام کے حقوق کے لیے سرگرم ہے اور اس تنظیم کے کسی فرد کا پاکستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔"

عسکریت پسند تنظیم کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ منگل کی شب ایرانی فورسز نے مغربی بلوچستان کے بعض حصوں میں جو کارروائی کی ہے اس سے تنظیم کے کسی رکن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

ایران کی جانب سے پاکستان پر داغے جانے والے ڈرونز
ایران کی جانب سے پاکستان پر داغے جانے والے ڈرونزتصویر: Ghani Kakar/DW

انہوں نے کہا، "پاسداران انقلاب نے تنظیمی ارکان کی موجودگی کی اطلاع  پر کارروائی، سیستان میں خاش اور ملحقہ علاقوں میں شروع کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران جو میزائل ہدف پر فائر کیے گئے تھے وہ  غلط رخ پر پاکستانی حدود میں جا گرے جس کی وجہ سے وہاں ہماری اطلاعات کے مطابق مقامی آباد ی کو نقصان پہنچا۔"

عسکریت پسند تنظیم جیش العدل نے گزشتہ روز زاہدان کے قریب پاسداران انقلاب کے مقامی ڈپٹی کمانڈر کرنل حسین علی جاویدانفر کو دو محافظوں سمیت ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

پاکستانی کی جانب سے جوابی کارروائی "آپریشن مرگ برسرمچار"

پاکستان نے ایرانی فضائی حملے کے ردعمل میں ہونے والی کارروائی کو آپریشن مرگ بر سرمچار کا نام دیا ہے ۔ سرمچار بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی جانثار کے ہیں۔ بلوچ عسکریت پسند خود کو قومی حقوق کے لیے جاری جنگ کے دوران سرمچار کے طور پرمتعارف کراتے ہیں۔ عسکریت پسند کہتے ہیں کہ بلوچ سرمچاروں نے قومی حقوق کے لیے جاری جنگ کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے اس لیے وہ جانوں پر کھیل کر قومی حقوق کا دفاع کریں گے۔ ایرانی علاقے سرآوان میں چونکہ پاکستانی فضائی کارروائی کے دوران کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ کے مبینہ ارکان کونشانہ بنانے کا دعوٰی کیا گیا ہے اسی لیے اس آپریشن کو مرگ بر سرمچار یعنی جانثاروں کی ہلاکت کے لیے ہونے والے آپریشن سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

پاکستانی فضائی کارروائی کے دوران اصل ہدف کون تھے؟

اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں روپوش عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں کالعدم تنظیم کے کئی اہم سرکرد ہ کمانڈر مارے گئے ہیں۔

سرآوان، سیستان بلوچستان میں پاکستانی جوابی حملوں کے بعد ایک تباہ حال گھر کے مناظر
سرآوان، سیستان بلوچستان میں پاکستانی جوابی حملوں کے بعد ایک تباہ حال گھر کے مناظر تصویر: Ghani Kakar/DW

نام ظاہر نہ کرنے شرط پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے انہوں نے کہا، "یہ ایک بہت اہم کارروائی تھی جو کہ پاکستانی کی قومی خودمختاری کے لیے کی گئی۔ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے سرآوان میں جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں پاکستان کو مطلوب بی ایل ایف کے کئی عسکریت پسند روپوش تھے۔کارروائی میں ہلاک ہونے والے افراد میں، رئیس دوستام حاجی ارشاد، بشام، فضل شیر، سوغیر عرف میجر، شاپوک مجید عرف پیرا، یعقوب اور دیگر عسکریت پسند شامل ہیں۔"

سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ ہلاک شدت پسندوں کے ٹھکانوں سے متعلق تفصیلات کئی بار ایرانی حکام کے حوالے کی گئی تھیں لیکن وہاں سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔

انہوں نےمذید کہا،"یہ کارروائی انٹیلی جنس کی مصدقہ اطلاعات پر کی گئی ہے اورجو لوگ کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں وہ عرصہ دراز سے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت دیگر بدامنی کے واقعات میں ملوث تھے۔ کالعدم تنظیم سے وابستہ عسکریت پسند بلوچستان میں حملوں کے بعد ان ٹھکانوں میں اکثر روپوش ہوجاتے تھے۔ امید ہے ایرانی حکومت آئندہ اپنی سرزمین پاکستا ن کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔"

سرآوان میں پاکستانی فضائی کارروائی اور مقامی لوگوں کا موقف

سرآوان میں مقیم مقامی قبائلی رہنماء محمد عزیز ریگی کہتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران معصوم شہریوں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے مقامی لوگ شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایرانی سرحد کے دونوں اطراف بلوچ قبائل کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں شورش کی سب سے بنیادی وجہ وہ بے انصافی ہے جس کا گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مقامی لوگ شکار ہیں۔ ایرانی حکام اقلیتی بلوچ آبادی کے ساتھ دیگر عام شہریوں جیسا رویہ اختیار ہی نہیں کرتی۔ جب بھی بد آمنی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو بلوچ اکثریتی علاقوں میں آپریشن شروع کردیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو بلاوجہ گرفتار اور بعض اوقات زیر حراست قتل کردیا جاتا ہے۔ انصاف کے لیے لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔"

ایران، سرآوان کا وہ علاقہ جہان آج پاکستان نے جوابی حملے کیے
ایران، سرآوان کا وہ علاقہ جہان آج پاکستان نے جوابی حملے کیے تصویر: Ghani Kakar/DW

عزیز ریگی کا کہنا تھا کہ ساروآن میں پاکستانی کارروائی کے دوران  تین خواتین اور چار بچے  بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کی لاشیں ملبے سے نکال لی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، "میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی حملے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے وہ درست ہوگا کیونکہ جو لاشیں متاثرہ علاقے سے نکالی گئی ہیں ان کی ابھی تک شناخت بھی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق بعض لاشیں ایرانی حکام نے تحویل میں لی ہیں جن کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم جن خواتین اور بچوں کی جانیں اس حملے میں ضائع ہوئی ہیں اس پر نہ یہاں ایرانی حکومت کا کوئی  واضح  موقف سامنے آیا ہے نہ ہی پاکستان کا۔"

پاک ایران سرحد پر دوطرفہ فضائی حملوں کے بعد کشیدگی جاری، سکیورٹی ہائی الرٹ

جنوب مغربی بلوچستان کے ضلع پنجگور میں تعینات ایک مقامی انتظامی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ سبزکوہ نامی دیہات کے جس حصے کو ایران نے ڈرون حملے کا نشانہ بنایا ہے وہاں صرف مقامی شہری مقیم تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایرانی ڈرون حملے سے اس خطے میں یقیناً کشیدگی پھیل چکی ہے تاہم یہ دعویٰ یکسر غلط ہے کہ یہاں عسکریت پسندوں کے کسی ٹھکانےکو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے  میں عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں ایرانی حکومت اپنے بے بنیاد دعوے کی کوئی تصدیق نہیں کرسکتی۔ پاک ایران سرحدی علاقوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور ہماری فورسز کسی بھی ناشگوار واقعے سے بروقت نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔"

پاکستانی حملوں کے بعد ایران میں تباہی کے مناظر
پاکستانی حملوں کے بعد ایران میں تباہی کے مناظر تصویر: Ghani Kakar/DW

ضلع    پنجگور میں کوہ سبز کے مقامی سماجی رہنماء مولا بخش دشتی کہتے ہیں کہ علاقے میں مخدوش صورتحال کی وجہ سے مقامی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "یہ ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ منتشر آبادی پر مشتمل دیہات پر ایرانی ڈرون حملے سے 2 بچے ہلاک جبکہ 3 بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔ ایرانی حکومت کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ علاقے میں ڈرون حملے سے لوگوں میں شدید خوف وہراس پھیل چکا ہے ۔ ڈرون حملوں سے متاثرہ خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔ پاکستانی حکومت لوگوں کے تحفظ پر توجہ دے۔"

مولابخش دشتی کا کہنا تھا کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں پر ایرانی فوج کی جانب سے ماضی میں بھی راکٹ فائرنگ کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔